جریر بن عطیۃ
بنو امیہ کے شعراء میں ایک جریر بن عطیہ بھی تھا جس کی پرورش ایک غریب خاندان میں ہوئی، وہ اونٹ چرایا کرتا تھا۔جریر نے چھوٹی عمر سے ہی شعر کہنے شروع کردیئے تھے۔ اپنے اشعار کے ذریعے اپنے وقت کے بادشاہ عبدالملک کے محل تک رسائی حاصل کرلی۔جریر جب حجاج بن یوسف سے ملا تو اس کے بارے میں حمدیہ قصائد کہےجس کی خبر جب عبدالملک کو ہوئی تو وہ حجاج پر حسد کرنے لگا اس پر حجاج نے جریر کو اپنے بیٹے کے ہمراہ عبدالملک کے پاس بھیج دیا وہاں جریر نے عبدالملک کی خوب مدح سرائی کی جس کی وجہ سے جریر نے خلیفہ وقت عبدالملک کے ہاں اعلیٰ مقام حاصل کرلیا۔
جریر سے پوچھا گیا کہ بڑا شاعر کون ہے اس پر جریر نے کہا بڑا شاعر وہ ہے جو تنہا شعراء سے فخرمیں مقابلہ کرسکےاور ان پر غالب آنے کی سکت رکھتا ہو۔وہ کہتا ہے کہ ایسا کرنےوالامیں خود ہوں۔ماہرین نے دیگر شعراء کے مقابلے میں جریر کاپلہ بھاری اس لئے کیا کیونکہ اس نے تمام اضاف میں طبع آزمائی کی ہےاوران کاحق اداکیا۔نیز وہ مدحیہ شاعری ہجویہ شاعری اور غزلیہ شاعری میں بھی ممتازوخوبصورت شعر کہنے والا نظر آتا ہے۔
جریر مرثیہ نگاری کا بھی ماہر تھا، اس نے اپنی بیوی کا مرثیہ کہا تھا مگر شرم و حیاء کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کی قبر پر نہ گیا تھا، مگر مرثیہ میں اس کے جذبات لطیف اور سچے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ آج تک کسی نے اس انداز میں اپنی بیوی کا مرثیہ نہ کہا تھا۔
جریر ہجونگاری کا بھی بادشاہ تھا،دلیل ملاحظہ کریں، ایک دفعہ اونٹوں کے چرانے والے کسی راعی نے جریر کی ہجوبیان کی تو جریر نے سوق مربد(میلہ)میں پیش کردہ قصیدہ میں جواب پیش کیا جبکہ وہ چرواہا وہاں پر موجود تھا، جب جریر اس شعر پر بہنچا۔
فغض الطرف انک من نمیر فلا کعبا بلغت ولا کلابا
تو اپنی نظر کو نیچا کرکے جھکا لے کیونکہ تیرا تعلق قبیلہ نمیر سے ہے لہذانہ توقبیلہ بنو کعب کو پہنچ سکتا ہے اور نہ قبیلہ کلاب کو۔
جب اونٹ کے چرواہے نے یہ بات سنی تو اس نے گردن کو جھکا لیا اور چلا گیا۔
thanks for information
ReplyDelete